[full-post]
ایک شخص نے کہا، میں یہاں ایک چیز بھول گیا ہوں۔ فرمایا کہ دنیا میں صرف ایک چیزایسی ہے جسے کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اگر تجھے باقی سب چیزیں بھول جائیں اور یہ ایک چیز یاد رہے تو کوئی ڈر نہیں اور باقی سب چیزوں کو خاطر میں لائے اور یاد رکھے اور اس ایک چیز کو فراموش کردے تو تو نے کچھ بھی نہ کیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ ایک بادشاہ نے تجھے ایک خاص کام کے لئے کسی گاؤں بھیجا تھا، وہ تجھے نہ بھولا تو یوں سمجھ کہ گتونے کوئی بھی کام فراموش نہیں کیا۔ پس انسان اس دنیا میں ایک خاص کام کے لئے آیا ہے۔ اور وہی ایک مقصد ہے اگر وہ اسے نہ بھولا تو گویا وہ کچھ بھی نہیں بھولا۔
’’ہم نے خاص امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو پیش کی تو انہوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے خوف کھایا اور انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ (اپنے حق میں) ظالم اور جاہل تھا۔‘‘ سورہٗ احزاب: ع۹)
وہ امانت ہم نے آسمانوں کو پیش کی، وہ اسے قبول نہ کر سکے دیکھو اس سے کئی کام ایسے ہوتے ہیں جن سے عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ پھر کو لعل اور یاقوت بنا دیتا ہے۔ پہاڑوں کو سونے اور چاندی کی کانیں بناتا ہے اور زمین میں نباتات کو جوش میں لاتا اور زندہ کرتا ہے اور اسے بہشت عدن بنا دیتا ہے زمین بھی دانوں کو قبول کرتی ہے اور پھل دیتی ہے۔ عیبوں کو چھپاتی ہے اور صد ہا عجائبات ایسے پیدا کرتی ہے کہ ان کی شرح نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح پہاڑ بھی گوناگوں معدنیات پیدا کرتے ہیں یہ سبھی کچھ کرتے ہیں لیکن ان سے ایک کام نہیں ہوا اور وہ کام انسان نے کر لیا۔ چنانچہ خدا نے کہا:
’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی۔
اس لئے یہ نہیں کہا:
’’ہم نے بزرگی دی، آسمانوں اور زمین کو۔
پس انسان نے وہ کام کر دکھایا جو نہ آسمانوں سے ہو سکا، نہ زمینوں سے اور نہ پہاڑوں سے۔ جب وہ کام کر لیا، تو ’’ظلم‘‘ اور ’’جہالت‘‘ کی خود ہی نفی ہو گئی۔ اگر تو یہ کہے کہ اگر میں وہ ایک کام نہیں کرتا ، تو نہ سہی۔ بے شمار دوسرے کام تو کرتا ہوں۔ یاد رکھ کہ انسان کو ان دوسرے کاموں کے لئے نہیں پیدا کیا گیا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ تو ہندوستانی فولاد کی انمول تلوار جو بادشاہوں کے خزانوں ہی میں ملتی ہے ، لائے اور اسے گوشت کاٹنے کا چھرا بنا لے، کہ میں اس تلوار کو بیکار نہیں رکھتا۔ اس سے یوں کام لینے میں مصلحت ہے، یا تو سونے کی ایک دیگ لے آئے اور اس میں شلغم پکانے لگے۔ حالانکہ اس کے ایک ذرہ سے سو دیگیں ہاتھ آتی ہیں۔ یا ایک جوہر دار تلوار کو ٹوٹا ہوا برتن لٹکانے کے لئے کھونٹی بنا لے اور کہے میں مصلحت اسی میں دیکھتا ہوں کہ برتن کو اس پر لٹکاؤں، تلوار میرے پاس بیکار نہیں ہے۔ کیا یہ افسوس اور ہنسی کا مقام نہیں کہ جبکہ برتن لکڑی کی کھونٹی سے یا ایک پیسے والی لوہے کی میخ سے لٹکایا جا سکتا ہے تو ناحق سو دینار والی تلوار سے یہ کام لیا جائے۔ کیا یہ عقل کی بات ہے؟
خدا تعالیٰ نے تیری بڑی قیمت مقرر کی ہے۔ وہ فرماتا ہے:
’’خدا تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جان اور مال کو خرید لیا ہے کہ ان کے بدلے میں انہیں جنت دے گا۔‘‘ سورہٗ توبہ
ترجمہ شعر: قیمت میں تو دو جہانوں سے بھی زیادہ ہے، کیا کروں تو خود اپنی قدرو قیمت نہیں جانتا۔
ترجمہ مصرع: اپنے آپ کو سستا نہ بیچ کیونکہ تیری قیمت بہت زیادہ ہے۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں، تمہارے اوقات، تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہارے روزگار تم سے خرید لیے ہیں کہ اگر یہ سب چیزیں مجھ پر صرف کرو گے اور مجھے دو گے تو ان کے بدلہ میں تمہیں ہمیشہ کے لئے بہشت دوں گا۔ میرے نزدیک تیری قیمت یہ ہے اگر تو اپنے آپ کو دوزخ کے بدلے فروخت کردے، تو اس حالت میں تو اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ اگر تو ایسا کرے تو یہ اسی طرح ہوگا جس نے سو دینار سے خریدی ہوئی تلوار دیوار میں نصب کرکے اس پر کوئی برتن لٹکادیا۔
ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں ۔ تو بہانہ پیش کرتا ہے کہ میں اپنے آپ کو دنیا کے کاموں میں لگائے ہوئے ہوں۔ میں فقہ، حکمت، منطق، نجوم، طب وغیرہ جیسے علوم حاصل کررہا ہوں۔ آخر یہ سب کچھ تیرے ہی لیے ہے۔ اگر فقہ ہے تو وہ اس لئے کہ کوئی تیرے ہاتھ سے روٹی نہ چھین لے، تیرے کپڑے نہ اتار لے اور تجھے مار نہ ڈالے اور تو سلامت رہے۔ علم نجوم کی پوچھتا ہے تو افلاک کا حال، زمین پر ان کا اثر، امن اور خوف کی زیادتی یا کمی ان سب باتوں کا تعلق تیرے حالات سے ہے اور اگر ستارہ کو لو تو سعد اور نحس کا تعلق تیرے طالع سے ہے، یہ بھی تیرے لیے ہے۔ تو غور کرے تو اصل چیز تو خود ہے اور یہ سب کچھ تیری شاخیں ہیں جب تیری شاخوں کی تفاصیل، عجائبات، احوال اور حیران کر دینے والے علوم کی کوئی حد نہیں تو سوچ کہ تو جو اصل ہے تیرا کیا حال ہے؟ جب تیری شاخوں کا عروج ، ہبوط، سعد اور نحس ہے تو تو کہ ان شاخوں کا اصل ہے، عالم ارواح میں تیرا عروج، ہبوط، سعد، نحس، نفع اور نقصان کیا ہوگا؟ کہ فلاں روح کی یہ خصوصیت ہے اور وہ یہ کچھ کر سکتی ہے اور فلاں کام اس کے لئے مناسب ہے۔
اس نیند اور خورش کے علاوہ تیری اصل خوراک کچھ اور ہے۔
’’میں اپنے پروردگار کے حضور میں رہتا ہوں، وہی مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔‘‘
اس دنیا میں تو اس خوراک کو بھول گیا اور یہ خوراک کھا رہا ہے رات دن تو تن پروری میں مصروف ہے۔ آخر یہ جسم تیرا گھوڑا ہے اور یہ دنیا اس کا اصطبل ہے۔ گھوڑے کی خوراک سوار کی خوراک نہیں ہوتی۔ اسے تو اپنے سے بہتر خواب و خورش کی نعمتیں مہیاکر رہا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے کہ حیوانیت اور بہیمیت تجھ پر غالب ہے تو گھوڑے کا سوار ہوتے ہوئے سب گھوڑوں سے بھی پیچھے رہ گیا ہے اور عالمِ بقا کے بادشاہوں اور امیروں کی صف میں تیری جگہ نہیں ہے تیرا دل وہیں ہے، جسم تجھ پر غالب ہے اس لئے تو جسم ہی کا حکم مانتا ہے اور اسی کا تو قیدی بن گیا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مجنوں نے لیلیٰ کے شہر جانے کا ارادہ کیا، جب تک مجنوں کو ہوش رہا، وہ اونٹ کو اس طرح دوڑاتا رہا، جب وہ لیلیٰ کے خیال میں مستغرق ہو گیا تو اپنے آپ کو اور اونٹ کو بھول گیا، گاؤں میں اس اونٹ کا بچہ تھا اونٹ کو موقع ملا تو اس نے گاؤں کا رخ کر لیا اور وہاں لوٹ ایا۔ جب مجنوں کو ہوش آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کی مسافت صرف دو دن کی تھی۔ مگر سفر میں اسے تین مہینے لگ چکے ہیں ۔ مجنوں چلایا کہ یہ اونٹ میرے لئے مصیبت ہے ۔ اونٹ پر سے کود کر اتر آیا اور پیدل روانہ ہوا:
’’میری اونٹنی تو میرے پیچھے پیچھے چل رہی ہے اور میرے آگے آگے محبت کا قافلہ رواں ہے، اس لیے میں اور میری اونٹنی دو مختلف راستوں پر گامزن ہیں۔‘‘
فرمایا سید برہان الدین محقق قد س سرہ نے ارشاد کیا کہ کسی نے ان سے کہا، فلاں آدمی سے میں نے آپ کی تعریف سنی ہے بولے دیکھوں تو وہ شخص کون ہے؟ کیا اس کا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مجھے پہچان لے؟ اور میری تعریف کرے؟ اگر اس نے میری باتوں سے مجھے پہچانا ہے تو وہ مجھے نہیں پہچان سکا۔ کیونکہ نہ یہ باتیں رہیں گی ، نہ حرف نہ آواز اور نہ لب و دہن رہیں گے۔ یہ سب چیزیں قائم الذات نہیں بلکہ عرض ہیں۔ ان کی اصل کچھ نہیں اور اگر اس نے مجھے میرے فعل سے پہچانا ہے تو بھی ایسا ہی ہے اگر اس نے میری ذات پہچانی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ میری تعریف کر سکتا ہے اور وہ تعریف میری ہی ہے۔
حکایت: کہتے ہیں، ایک بادشاہ نے اپنا بیٹا ایک اہلِ ہنر جماعت کے سپرد کر رکھا تھا کہ وہ اہلِ ہنر اسے علم نجوم اور رمل وغیرہ سکھائیں۔ انہوں نے اسے لکھا پڑھا کر مسلم الثبوت استاد بنا دیا۔ بیوقوفی اور احمق پن اس میں بکمال موجود تھا۔ ایک دن بادشاہ نے انگوٹھی اپنی مٹھی میں دبائی اور بیٹے کا امتحان لیا۔ کہا بیٹا مجھے بتاؤ تو میری مٹھی میں کیا ہے؟ اس نے جواب دیا آپ کی مٹھی میں کوئی ایسی چیز ہے جو گول ہے، زرد ہے اور اندر سے خالی ہے۔ بادشاہ نے کہا، جب تم نے ساری نشانیاں ٹھیک ٹھیک بتا دی ہیں، تو اب حکم لگاؤ کہ وہ کیا چیز ہے؟ وہ بولا اسے دف ہونا چاہیے۔ بادشاہ نے کہا، بیٹا تو نے کئی بڑی مشکل نشانیاں بتا دیں، جن سے عقل ورطہ حیرت میں پڑ گئی۔ لیکن یہ چھوٹی سی بات تیرے علم اور عقل میں کیوں نہ آئی کہ دف جتنی بڑی چیز مٹھی میں نہیں آسکتی۔
اسی طرح ہمارے زمانے کے علماء کئی علوم میں موشگافیاں کرتے ہیں اور جن چیزوں کا تعلق ان سے نہیں، انہیں خوب سمجھتے ہیں اور ان پر بہت حاوی ہیں اور جو چیز سب سے بڑی اور سب سے قریب تر ہے وہ ان کی اپنی خودی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی اپنی خودی کو نہیں جانتا۔ چیزوں کی حرمت و حلت کے متعلق یہ فتویٰ دیتے ہیں کہ یہ چیز جائز ہے اور وہ ناجائز۔ یہ چیز حلال ہے اور وہ حرام۔ لیکن ان میں سے اپنے آپ کو کوئی جانتا ہے کہ وہ حلال یا حرام؟ جائز ہے یا ناجائز؟ پس اس کا یہ خلا، زردی، نقش اور گولائی سب عارضی ہے۔ تو اسے آگ میں ڈال دے تو ان میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہتا، ذات ان سب سے معرا ہے۔
وہ جس چیز کی نشانی بتاتے ہیں، وہ علم، فعل اور قول سے ایسی ہی ہوتی ہے اور جوہر یعنی اصل ذات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان سب کے بعد باقی رہنے والی چیزذات ہی ہے۔ ان کی بتائی ہوئی نشانیاں ایسی ہیں ہیں۔ یہ وہ سب نشانیاں بتا دیتے ہیں اور ان نشانیوں کی تشریح خوب کرتے ہیں اور آخر میں حکم لگاتے ہیں کہ مٹھی کے اندر دف ہے۔ جو چیز کہ اصل ہے، اس کی انہیں خبر نہیں ہوتی۔ میں پرندہ ہوں، بلبل ہوں یا طوطی ہوں۔ اگر وہ مجھے کہیں تم کسی اور قسم کی آواز نکالو تو مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ میری یہی آواز ہے۔ میں کسی دوسری طرز پر نہیں بول سکتا۔ اس کے برعکس اگر کسی نے پرندہ کی آواز سیکھی ہے تو وہ خود پرندہ نہیں ہے۔ وہ صیاد ہے اور پرندوں کا دشمن ہے۔وہ پرندوں جیسی آواز اس لیے نکالتا ہے کہ اسے پرندہ سمجھیں۔ اگر انہیں حکم دیا جائے کہ اس آواز کے علاوہ تو کسی اور رنگ کی آواز نکال سکتا ہے۔ چونکہ پہلی آواز بھی اس کی مانگی ہوئی تھی اور اس کی اپنی نہیں تھی۔ وہ کسی دوسری قسم کی آواز بھی نکال سکتا ہے۔چونکہ اس نے دوسرے لوگوں کا مال چرانا سیکھ لیا ہے۔ وہ ر گھر کا مال اپنا ظاہر کرکے دکھاتا ہے۔ 
چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے، داغ اپنا کلی کلی کو
وہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا
اقبال


 

Post a Comment

Muhammad Atif Saeed

{picture#https://fbcdn-profile-a.akamaihd.net/hprofile-ak-xpt1/v/t1.0-1/p160x160/9005_1033724749987308_8576869695437769905_n.jpg?oh=a78aa0b0cd2951e9626b17bf67d3e38c&oe=56E58454&__gda__=1457584649_01a9cd9576457cc9faadda768986e91c} YOUR_PROFILE_DESCRIPTION {facebook#https://www.facebook.com/atificmap} {twitter#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {google#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {pinterest#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {youtube#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL} {instagram#YOUR_SOCIAL_PROFILE_URL}
Powered by Blogger.